Saturday, 5 July 2025

الفاظ کے کیا اثرات اور کیا طاقت ھے؟

میٹھے بول کو کرخت لہجہ مل جائے تو بول میٹھا نہیں رہتا

اللہ تعالیٰ نے انسان کو زبان جیسی عظیم نعمت عطا کی ہے۔ زبان سے ادا ہونے والے الفاظ انسان کے اخلاق، نیت اور دل کی کیفیت کا آئینہ ہوتے ہیں۔ ایک ہی جملہ دو مختلف انداز سے کہا جائے تو اس کے اثرات بالکل جدا ہوتے ہیں۔ میٹھے بول اگر سخت لہجے میں ادا کیے جائیں تو وہ اپنی مٹھاس کھو بیٹھتے ہیں۔ دل کو تکلیف دیتے ہیں، رشتوں میں دراڑ پیدا کرتے ہیں اور سامع کو خوشی کے بجائے اذیت دیتے ہیں۔

ہم اکثر کہتے ہیں: "میں نے تو کچھ غلط کہا ہی نہیں!" لیکن یہ نہیں سوچتے کہ کیسے کہا؟
ایک جملہ: "تم نے اچھا کام کیا"
اگر مسکرا کر اور نرم لہجے میں کہا جائے تو تعریف سمجھی جاتی ہے، لیکن اگر کرخت لہجے میں، سختی سے اور چہرے پر غصہ لا کر کہا جائے تو یہی جملہ طنز محسوس ہوتا ہے۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

"وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا"
”لوگوں سے بھلی بات کہو“
(البقرہ: 83)

یہ آیت صرف میٹھے الفاظ کی تلقین نہیں کرتی بلکہ حسنِ کلام، اچھے انداز، نرم لہجے، اور عزت و محبت سے بات کرنے کی دعوت دیتی ہے۔

نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:

"المؤمن لیِّن الهين، سهلٌ قريبٌ"
”مومن نرم خو، نرم دل، آسان مزاج اور قریب رہنے والا ہوتا ہے“
(سنن بیہقی)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
"رسول اللہ ﷺ کی بات چیت سب سے زیادہ دل نشین، نرمی اور مٹھاس والی ہوتی تھی۔ آپ ﷺ کبھی کسی کو سخت لہجے میں نہ ٹوکتے اور نہ ہی طنز کرتے۔"

لہجے کی اہمیت

اکثر گھریلو جھگڑوں، دوستوں کی ناراضگی، اور دفتری ماحول کی کشیدگی کی جڑ لہجے کی سختی ہوتی ہے۔ اگر ہم اپنی بات کو خوش اخلاقی، مسکراہٹ اور نرم انداز میں کہہ دیں، تو مشکل بات بھی آسانی سے قبول کی جاتی ہے۔ لیکن اگر لہجہ غصے، برتری، یا حقارت سے بھرپور ہو، تو سب سے خوبصورت جملہ بھی تکلیف دہ لگتا ہے۔

مثال کے طور پر، ایک ماں اگر بچے سے کہے:
"بیٹا! کتابیں سمیٹ لو"
اور یہ بات وہ محبت بھرے انداز میں کہے، تو بچہ فوراً عمل کرے گا۔ لیکن اگر وہی جملہ چیخ کر، غصے سے، ڈانٹ کر کہا جائے تو بچہ خوف زدہ ہو کر دل سے بغاوت کرے گا۔

ہماری معاشرتی غلطیاں

ہمارے معاشرے میں اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ تلخ لہجہ "رعب" بناتا ہے یا "بات میں وزن" پیدا کرتا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ سخت لہجہ دلوں کو زخمی کرتا ہے، رشتے کمزور کرتا ہے، اور عزت گھٹا دیتا ہے۔

حضرت واصف علی واصفؒ کا قول ہے:

"زبان کی مٹھاس تعلقات کی مٹھاس ہوتی ہے، اور لہجے کی سختی اکثر زبان کی مٹھاس کو مار دیتی ہے۔"

اصلاح کی ضرورت

ہمیں خود سے سوال کرنا ہوگا:
کیا ہماری بات سننے کے بعد لوگ خوش ہوتے ہیں؟
کیا ہم اپنی بات محبت سے، نرمی سے، عزت سے کہتے ہیں؟
یا ہمارے لہجے میں برتری، جھنجھلاہٹ اور طنز چھپا ہوتا ہے؟

اگر ہم اپنے لہجے کی اصلاح کر لیں، اپنی زبان کو نرم بنا لیں، تو رشتے بھی بہتر ہوں گے، ماحول بھی خوشگوار ہوگا اور لوگ ہماری بات کو دل سے سنیں گے۔

یاد رکھیں:
الفاظ کا انتخاب اہم ہے، لیکن اندازِ بیان اس سے بھی زیادہ اہم ہے۔
میٹھے بول اگر سخت لہجے میں ادا ہوں تو ان کا اثر زہر کی مانند ہوتا ہے۔ اس لیے ہمیں صرف اچھا بولنے کی نہیں، اچھے انداز میں بولنے کی بھی عادت ڈالنی چاہیے۔
#آواز ادراک

No comments:

Post a Comment